06-Nov-2022-رب کی رضا
ازقلم مرحا شہباز
عنوان رب کی رضا
”خوف زدہ کیوں ہو؟“
”ماضی عیاں ہونے کا سوچ کر“
”خستہ حالی کا باعث؟“
”حال کا بدحال ہونا“
”اِس پژمردگی کا سبب؟“
”مستقبل کی فکر۔“
”بے سکوں لگتی ہو؟“
”جی شاید ہوں۔“
”وجہ دریافت کی۔“
”وہ جو رب ہے نا، شاید روٹھ گیا ہے۔“
”پر وہ تو بڑی جلدی مان جاتا ہے۔“
”بندہ مناۓ تب نا۔ اور اگر شیطان ورغلاۓ تو بندہ مناۓ کیسے۔”
اور اپنی معلمہ کے سامنے بیٹھی مومنہ دھاروں رو دی۔ اور یہ اشک فشانی جاری ہی رہی حتٰی کہ اس کی ہچکی بندھ گٸ۔ مومنہ کو دین کی جانب راغب ہوۓ دو ہی ماہ ہوۓ تھے۔ مگر ہر دن وہ پچھلے روز کی نسبت مزید پریشان ہوتی۔ سو آج اس کی معلمہ نے کھل کر بات کرنے کا سوچا۔ جس پر اُس نے یہ انکشافات کیے۔
”معلمہ! مجھے میرے ناتواں کندھوں پر بارِ گراں محسوس ہوتا ہے۔ ہر لمحہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ میں گناہوں کے بوجھ تلے دب کر ابھی گر جاٶں گی۔“ وہ اشکوں کی برسات روکتے رندھی آواز میں بولی۔
”اور تھامنے والی کوٸی ذات محسوس نہیں ہوتی؟“ معلمہ نے جھٹ سوال کیا تو وہ خاموش ہو گٸ۔ دونوں کے درمیان سکوت حاٸل رہا جس کو توڑنے کے لیے معلمہ خود ہی گویا ہوٸیں۔
”دیکھو مومنہ جب دین کا دامن تھامنے کے بعد، کبھی ایسا محسوس ہو تو خود کو گرنے دینا۔ تم اب اُس عالی مرتبہ ذات کا راستہ اپناۓ ہوۓ ہو جو تمھیں تھامنے کے لیے ہر ہر گھڑی موجود ہے۔ ماضی، حال اور مستقبل کی پریشانیوں اور خوف کو محسوس کرنے کی بجاۓ اپنے ہر عمل کی پرکھ کی کسوٹی رب کی رضا یا ناراضی کو بنا لو۔ عمل سے قبل صرف یہ سوچو کہ وہ رب راضی ہو گا یا ناراض۔ راضی ہوتا محسوس ہو تو دوڑ کر عمل کرو اور ناراض ہونے کا خدشہ ہو تو مزید سبک رفتاری سے دوڑتے ہوۓ خود کو دُور کر لو۔ رب کی رضا پر راضی رہو گی تو دنیا بھی تمھاری، آخرت کی بھلاٸیاں بھی۔“ معلمہ کے محبتوں بھرے انداز نے اُسے بہت ہلکا کر دیا۔ دونوں اٹھیں اور مدرسے کے اندرونی حصے کی جانب چلنے لگیں۔ اب شیطان کی کوٸی بھی چال مومنہ پر اثرانداز نہ ہونی تھی۔
Khushbu
14-Nov-2022 05:23 PM
👌
Reply
Arshik
06-Nov-2022 11:14 AM
ماشاءاللہ آپ نے بہت زبردست لکھا ہے بہت اچھا ❤️❤️👌👌
Reply
recluse_writes
06-Nov-2022 11:17 AM
جزاک اللہ💜
Reply